خوش کلامی


خوش کلامی









خوش کلامی کی تاثیر اور برکتیں بہت زیادہ ہیں
انسان کتنے ہی بلند مرتبہ پر فائز ہوجائے کتنی دولت کمالے مگر جب تک اس میں خوش کلامی نہیں توایسے شخص کی کوئی عزت نہیں کرتا جو ہر وقت سخت لہجے میں رہنا پسند کرتا ہو۔بلکہ  ایسا شخص ہمیشہ خود بھی ڈپریشن اور پریشانی میں ہی نظر آتا ہے۔اس کے برعکس جس شخص میں خندہ پیشانی مستقل مجازی نرم گفتاری جیسی صفات شامل ہوں ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا ہو۔۔ایسے شخص کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ہر وقت کڑوے اور سخت لہجے سے نکالے گئے الفاظ چہرے پر نفرت کے تاثرات چھوڑ دیتے ہیں ہر وقت تیوری چڑھا کر رکھنے سے چہرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی عمر سے بڑا دکھنے لگتا ہے جبکہ مسکراتا ہوا چہرہ ہر کسی کو اپنی طرف مائل کرتا ہے چہرے پر شگفتگی کا احساس انسان کی پریشانیوں کو کم کر دیتا ہے ۔مسکراہٹ اور خوش کلامی انسان کے لئے بہت ضروری ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنے کا حکم دیا۔اور خوش کلامی کرنے کو بہتر سمجھا ...آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی میٹھی اور دیھمیےلہجے میں بات کرتے کہ دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور دوست بن جاتا ۔۔ ایک صحابی کا قول ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مسکراتا ہوا کوئی چہرہ نہیں دیکھا۔۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی نقل فرماتی ہیں جب آپ گھر میں داخل ہوتے تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہمیں بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ مسکراتا ہوا چہرہ انسان کے حسین دل ہونے کی کی دلیل ہے کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے انسان پریشانی کا شکار ہوتا ہے اور فکر کے باعث خوش کلامی نہیں کر پاتا ایسے موقع پر آپ صلی اللہ وسلم نے نصیحت فرمائ۔۔جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا جو زیادہ بولتا ہے وہ اچھے اور برے الفاظ کا کا فرق محسوس کرنا کم کر دیتا ہے اور اس طرح بدزبانی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے زبان کا غلط استعمال بدذبانی کرنا بھی ایک بدترین جرم ہے یہی وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدذبان اور زبان کے غلط استعمال کو بدترین جرم قرار دیا ہے آپ نے فرمایا جتنی زبان درازی بری خصلت ہے اتنی بری کو ی چیز نہیں ہےانسان کے لیے۔ غیبت کو بھی زیادہ بڑا جرم کہاگیا ہے اس لیے فرمایا۔خاموشی اختیار کرو یا ذکر خداوندی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں چلتے پھرتے استغفار درود شریف پڑھتے رہیں تاکہ برائیوں اور بدزبانی سے محفوظ رہا جاسکے کیوں کہ انسان کے جسم کا سب سے خطرناک حصہ ذبان ہے جو انسان کی عزت کوذلت میں بدل کر رکھ دیتا ہے اور خاموش رہنے سے انسان بہت ساری برائیوں سے بچ جاتا ہے۔۔جس طرح خاموشی بھی ایک عبادت ہے حدیث شریف میں ہے آپ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں جب انسان غصے کی حالت میں زبان کھولتا ہے تو دوسروں پر الزام تراشی اور طعنہ زنی کرتا ہے اس کے عیب بیان کرتا ہے جس سے سامنے والے کو تکلیف ہوتی ہے خاموشی کا حکم دیا گیا ہے کیوں کہ عزت ان لوگوں کو ملتی ہے جو خاموشی اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کے عیب بیان نہیں کرتے۔وہی لوگ فلاح پاتے ہیں۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں اس طرح سے لکھتے ہیں انسان چار قسم کی باتیں کرتاہے اول۔۔ جن باتوں میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے دوم  جن میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔۔سوئم۔ جن میں نفع زیادہ اور نقصان کم ہوتا ہے۔۔۔ چہارم جن میں نفع ہی نفع ہوتا ہے۔۔۔۔ اور باقی یعنی پہلی والی دو قسموں کو بتایا ان کو چھوڑنے کے قابل کہا گیا ہے اس پر عمل کرنے کے لئے سوچ کر بولنے میں ہی نفع ہے۔
۔اسی لیے کم بولنا اور اچھا بولنا ہر کسی کو اپنی طرف مائل کر لیتا ہے  اسی لئے حکم دیا کہ کم بولو اچھا بولو جو کہ کانوں کو بھلا لگے۔الفاظ میٹھے دھیمے لہجے میں کیے جائں تو سننے والے پر بھی اثر چھوڑتے ہیں اکثر اوقات صحیح بات کو بھی سخت لہجہے اور کڑوے انداز میں کرنے سے لوگ آپ کو غلط تصور کرتے ہیں۔۔۔اسی لئے خوش کلامی انسان کی زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے بہت ضروری ہے ۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غصہ کرنا بری عادت ہے

میری تحر یر۔۔۔۔سب کے لیے۔پر سکون زندگی

نامور شاعرہ پاکستانی دلوں پر راج کرنے والی