برداشت کی کمی

Meri tehreer


عدم برداشت 
آجکل معاشرے میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے ہم ہر کسی کو غصے  کی نظر سے دیکھتے ہیں شدت پسندی بڑھ چکی ہے معاشرے میں ناانصافی عام ہوتی جارہی ہے بلکہ عام ہوگئی ہے ہر کوئی انصاف کی تلاش میں روتا پھرتا نظر آرہا ہے ہر جگہ افسوس تحفظ معاشرے میں ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی لوگوں کو تحفظ نہیں مل رہا ہر وقت جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ہر کوئی پریشان نظر آتا ہے مگر کوئی بھی پریشانی سے نکالنے والا کسی کی مدد کرنے والا نظر نہیں آتا سب کو اپنی اپنی فکر لوگ مرنا بھول گئے ہیں معاشرے میں رہتے ہوئے کسی کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی غصہ کر کے انتشار پھیلانا عام ہوتا جارہا ہے بلکہ پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کی کوشش میں رہتے ہیں کسی نے ہمیں برا کہہ دیا تو اب ہمیں  اسے منہ توڑ جواب دینا ہو گا اس کی ہرممکن توہین اور اس کی کردار سازی کرنے لگتے ہیں کہیں پر ذات کا فرق ہے مذہب کے نام سے ایک دوسرے سے لڑتے نظر آتے ہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں عقل و شعور کی بجائے بےوقوفی جلد بازی بغیر مشاورتی عمل کے فیصلے کر لیتے ہیں جس کے نتاٸج برے ثابت ہوتے ہیں اور پھر غلط فیصلوں سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسروں سے مشورہ کرنا تو دور بلکہ گھروں میں رہ کر مشورے کرنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے گھر کے افراد میں وہ رابطے نہیں ہوتے جوایک دوسرے کے ہونے چا ہیں۔ایک دوسرے  وقت نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کی رائے نہیں لیتے دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہوگیا۔دوسروں پر کیچڑ اچھال کر خود کو تسکین پہنچاتے ہیں اور اپنے آپ کو خود دار کہتے ہیں ہر بات پر اپنی مرضی چلائی جاتی ہے کسی معاملے میں دوسروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اپنی عزت و قدر کی توہین سمجھ کر لاتعلق ہو کر رونا روتے نظر آتے ہیں یا پھر رشتہ ختم کر دیتے ہیں مذہبی جماعتوں میں اختلافات اور ظلم بڑھتا جارہا ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی و سلامتی میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے چاہے گھر ہو گلی محلہ اسکول دفتر ہو کوئی بھی جگہ ہو مگر ایک دوسرے سے ناخوش نظر آئیں گے ایک دوسرے سے
شکوہ شکایت ہی رہتی ہے۔ دلوں میں زہر گھولنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور کینہ بغض حسد جیسی بیماریوں کو جنم دیتا ہے یہ سب اخلاقیات کی دوری کی وجہ سے  ہے یہ سب عدم برداشت ہی ہے جس کی وجہ سے ہم دوسروں ملکوں کی نظر میں وہ مقام نہیں بنا پا رہےجو ہمارا ہونا چاہیے۔اگر ہم اس معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کی شروعات کرنی پڑے گی ایک اچھا اور خوبصورت معاشرہ تشکیل دینا اتنا مشکل نہیں جتنا ہم سب نے سمجھ لیا  ہے اگر ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کی شروعات اپنی ذات سے کرنی پڑے گی ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اپنی بول چال اپنا رہن سہن بہتر کرنا ہوگا۔دوسروں کی عزت کرنی ہو گی۔ دوسروں کی رائے کا بھی خیر مقدم کریں۔ ریاستی قوانین کی اسلامی قوانین کی پاسداری کریں مستقل مزاجی کو اپنائے کسی شخص پر بھی زبردستی اپنی مرضی مسلط  نہ کریں۔اگر کسی کو سختیوں اور پابندیوں میں رکھا جائے تو نتیجہ برا اور معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہی نکلے گا اسی لئے دوسروں کی بات کو بھی اہمیت دینی چاہیے اپنے روزمرہ کے معمولات کا جائزہ لیاجائے ۔ہر کام میں صبر سے کام لیا جائے۔ ہر بات میں مثبت پہلو ڈھونڈے جائیں سہی اور غلط میں فرق محسوس کریں جہاں لگے کہ ہماری غلطی ہے وہاں ڈھٹائی سے انکار کرنے کی بجائے اگر اپنی غلطی کو مان لیا جائے تاکہ دوسروں کی نظر میں بھی آپ کی اہمیت بڑھ جائے ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے  ہمسایوں سےتعلقات اچھے رکھے جائیں تاکہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آسکیں۔ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہم اپنے گھر میں عدالتی نظام کو اچھا بنانا ہوگا چھوٹے بڑے سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آیا جائے تمام فیصلے عقل کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر کیے جائیں تاکہ نقصان سے بچا جا سکے ایک دوسرے کے ساتھ نرم لہجے میں بات کی جائے دینی اصلاحی کتب کا مطالعہ کیا جائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی کتب کو بطور تحفہ ایک دوسرے کو دینا چاہیے تاکہ اسلامی اخلاق کی روایات کو فروغ ملے اور ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پاسکے ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر ہی ہم عدم برداشت سے سے بچ سکتے  ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو اندر سے مار دیتی ہے اور وہ برائی اور اچھائی میں فرق محسوس نہیں کر پاتا اور معاشرے میں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Plese like and share

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غصہ کرنا بری عادت ہے

میری تحر یر۔۔۔۔سب کے لیے۔پر سکون زندگی

نامور شاعرہ پاکستانی دلوں پر راج کرنے والی