عدم برداشت

  •   عدم برداشت۔۔۔۔۔۔۔۔
  • آجکل معاشرے میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے ہم ہر کسی کو اس غصے کی نظر سے دیکھتے ہیں  شدت پسندی بڑھ چکی ہے معاشرے میں ناانصافی عام ہوتی جارہی ہے بلکہ عام ہوگئی ہے ہر کوئی انصاف کی تلاش میں روتا پھرتا نظر آرہا ہے۔۔۔
  •  مگر افسوس تحفظ معاشرے میں ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی لوگوں کو تحفظ نہیں مل رہا ہر وقت جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ہر کوئی پریشان نظر آتا ہے مگر کوئی بھی پریشانی سے نکالنے والا  کسی کی  مددکرنے والا نظر نہیں آتا سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔۔لوگ اس قدر ظلم اور زیادتیاں کرنے لگے ہیں یہ وہی لوگ ہوتے جو مرنا  بھول گئے  ہیں معاشرے میں رہتے ہوئے کسی کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی غصہ کر کے اشتہار پھیلانا عام ہوتا جارہا ہے بلکہ پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کی کوشش میں رہتے ہیں کسی نے ہمیں برا کہہ دیا تو اب ہمیں اسے منہ توڑ جواب دینا ہو گا اس کی ہرممکن توہین اور اس کی کردار سازی کرنے لگتے ہیں کہیں پر ذات کا فرق ہے مذہب کے نام سے ایک دوسرے سے لڑتے نظر آتے ہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں ہیں دوسروں کی زندگی کے فیصلے بھی اپنی مرضی سے  کرتے ہیں عقل و شعور کی بجائے بےوقوفی جلد بازی بغیر مشاورتی عمل کے فیصلے کر لیتے ہیں جس کے بارے نتائج ثابت ہوتے ہیں اور پھر غلط فیصلوں سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ہے دوسروں سے مشورہ کرنا تو دور بلکہ ایک  گھر میں رہ کر  بھی ایک مشورےدوسرے سے مشورہ کرنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے گھر کے افراد میں وہ رابطے نہیں ہوتے جو ہونے چاہیے
  • ۔۔۔۔ایک دوسرے کو وقت نہیں دیتے ایک دوسرے کی رائے نہیں لیتے دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہوگیا ہربات میں دوسروں کو کم تر دکھانے کا سوچتے ہیں دوسروں پر کیچڑ اچھال کر خود کو تسکین پہنچاتے ہیں ۔۔ ہر بات پر اپنی مرضی چلائی جاتی ہے کسی معاملے میں دوسروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اپنی عزت و قدر کی توہین سمجھ کر لاتعلق ہوتے نظر آتے ہیں یا پھر رشتہ ختم کر دیتے ہیں مذہبی جماعتوں میں اختلافات   بنت اورحوا پر  ظلم بڑھتا جارہا ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی و سلامتی میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے چاہے گھر ہوگلی محلہ اسکول دفاتر  کوئی بھی جگہ ہو مگر ایک دوسرے سے ناخوش نظر آئیں گے

شکوہ شکایت ہی رہتی ہے ایک دوسرے سے پھر دلوں میں زہر گھولنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور کینہ بغض حسد جیسی بیماریوں کو جنم دیتا ہے یہ سب اخلاقیات کی دوری کی وجہ سے ہے ہے یہ سب عدم برداشت ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان دوسروں ملکوں کی نظر میں وہ مقام نہیں بنا پا رہا۔جو اس کا ہونا چاہیے اگر اس معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو

اس کی شروعات کرنی پڑے گی ایک اچھا اور خوبصورت معاشرہ تشکیل دینا اتنا مشکل نہیں جتنا ہم سب نے سمجھ لیا ہے اگر ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کی شروعات اپنی ذات سے کرنی پڑے گی ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اپنی بول چال رہن سہن کے طریقوں کو درست کرنا ہوگا دوسروں کی عزت کرنا ہوگی۔سب کی رائے کا خیر مقدم کریں ریاستی قوانین کی پاسداری کریں مستقل مزاجی کو اپنائے کسی شخص پربھی زبردستی اپنی مرضی مسلط نہ کریں س اگر کسی کو پابندیوں میں رکھا جائے تو نتیجہ برا اور معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہی نکلے گا اسی لئے دوسروں کی بات کو بھی اہمیت دینی چاہیے اپنے روزمرہ کے معمولات کا جائزہ لیاجائے سے کسی کے ساتھ برائی سے پیش نہیں آنا چاہہے صبر سے کام لیا جائے میل جول کو ختم کرنے کی بجائے بڑھایا جائے ہر بات میں مثبت پہلو ڈھونڈے جائیں صحی اور غلط بات میں فرق محسوس کریں جہاں لگے کہ ہماری غلطی ہے وہاں ڈھٹائی سے انکار کرنے کی بجائے اگر اپنی غلطی کو مان لیا جائے تو دوسروں کی نظر میں بھی آپ کی اہمیت بڑھ جائے گی ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے ہمسایوں سے تعلقات اچھے رکھے جائے تاکہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آسکیں۔۔عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں اپنے گھر میں عدالتی نظام کو اچھا بنانا ہوگا چھوٹے بڑے سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آیا جائے گھروں میں فیصلے عقل کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر کیےجائیں تاکہ نقصان سے بچا جا سکے ایک دوسرے کے ساتھ نرم لہجے میں بات کی جائے دینی اصلاحی کتب کا مطالعہ کیا جائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی کتب بطور تحفہ ایک دوسرے کو دینا چاہیے تاکہ اسلامی اخلاقیات روایات کو فروغ ملے اور ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پاسکے ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر ہی ہم عدم برداشت سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اور ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو اندر سے مار دیتی ہے انسان براٸی

اچھائی میں فرق محسوس نہیں کر پاتا اور معاشرے میں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے

نہ جانے کتنے گھر اس بیماری کی وجہ سے تباہ ہو جاتے ہیں ۔اورکتنے رشتے ٹوٹ جا تے ہیں۔ہمیں عدم بر داشت سے بچنا ہوگا اور اپنی برداشت کو بڑھانا ہوگا۔اس کے لیے ہمٕں اپنے اندر صبر مستقل مجازی اور بردباری جیسے اوصاف پیدا کرنے ہوگیں۔تب ہی ہم اپنے آپ پر قابو پاسکتے ہیں۔۔۔۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غصہ کرنا بری عادت ہے

میری تحر یر۔۔۔۔سب کے لیے۔پر سکون زندگی

نامور شاعرہ پاکستانی دلوں پر راج کرنے والی