مہمان اللّہ تعالی کی رحمت

Meri tehreer                 

 مہمان اللّہ تعالی  کی رحمت



مہمان کو خدا کی رحمت کہا جاتا ہے۔۔اس کا خیال رکھنااسے کھانے پینے کی چیزیں کھلانا اس کے آرام کا بندوبست کرنا ایک مسلمان کا فرض ہے کیونکہ وہ آپ کے دسترخوان پر ضرور ہوتا ہے مگر کھاتا اپنے نصیب کاہےبلکہ جب خدا نے میں مہمان بھیجنا ہوتا ہے تو آپ کے گھر میں پہلے سے اس کا رزق بھیج دیا جاتا ہے ہے آپ کے گھر کھانا کھاتا ہے تو یہ آپ کے لیےعزت و احترام اور فخر کا باعث بنتا ہے آپ کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔مہمانوں کے کھانے پر خوشی محسوس کیجئے تنگ دلی اور منہ بنا کر کھانا پیش کرنے سے گریز کریں کوشش کریں اپنی اسطاعت کے مطابق مہمان کی پسند ناپسند کا خیال رکھ کر کھانا پکایا جائے اور وہی کھانا تیار کرے جس سے وہ خوش ہو رکر تناول فرماۓ۔دستر خوان پر پہلے مہمان کو کھانا نکالنے دے پھر گھر والے نکالیں اکثر دیکھا گیا ہے مہمان کی پسند کی ڈِش تیار کرکے گھر والے مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور مہمان بیچارہ شرم وحضوری محسوس کرتا ہے اور اسی وجہ سے پیٹ بھر کر نہیں کھاتااس لئے دستر خوان پر پہلے مہمان کو کھانا کھانے دے باقی گھر والوں کے لئے کچھ اور بنالیں  تاکہ مہمان کو اپنی اہمیت اور آپ عزت افزاٸ کا اندازہ ہو سکے اور وہ خوش ہو کر کھانا کھالے۔مہمان کی عزت و آبرو کا بھی خیال رکھیں۔۔مہمان کوپرانی کی ہوٸ حق تلفی کا طعنہ نہ دیں پرانی رنجشوں کا حوالہ دے کر کر کوئی ناپسندیدہ بات نہ کریں نہ ہی اس کے سامنے اپنی غربت کے رونے رویٸں تاکہ وہ آپ کے گھر میں کھانا کھاتے ہوئے گھبرائے اور اپنے آپ کو آپ پر بوجھ سمجھے۔اور نہ ہی اپنی امیری اور فراخدلی کے قصے سنائیں جس سے وہ اپنے آپ کو کمتر یا حقیر سمجھ کر شرمندہ ہو۔ بلکہ مہمان کو عزت دیں اور اس کے اٹھنے بیٹھنے کا درست بندوبست کریں کریں خود بھی اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں اور کسی اور کو بھی گھر آئے مہمان کے بارے میں برا مت کہنے دیں اگرکوٸ تیسرا فرد آپ کے مہمان کی عزت پر حملہ کرے یا اسے برا بھلا کہے تو اپنی غیرت اور حمیت کے خلاف چیلنج سمجھتے ہوئے انہیں روکیں۔۔قرآن میں بھی ہے جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمان پر بستی کے لوگ بد نیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں ان کے ساتھ بدسلوکی کرکے مجھے رسوا نہ کرو ان کی رسوائی میری رسوائی ہے۔۔
(سورۃ الحجر پارہ نمبر 15 آیت نمبر 68.69 )
ترجمہ:("لوط علیہ السلام نے کہا بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوا نہ کرو خدا سے ڈرو اور میری بےعزتی سے باز رہو")
مہمان کے آرام و سکون کھانے پینے کا خیال زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہے اس کے بعد میزبان جو کچھ کرے گااپے مہمان کیلیۓوہ اس کے لئےصدقہ ہوگامہمان کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں۔مہمان کے آنے پر خوشی کا اظہار کریں۔محبت و اکرام کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے بےرخی کا اظہار نہ کیجئےجب مہمان آجائےتو ان کے کھانے پینے میں لگ جایٸں۔۔ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر جب مہمان آۓ۔ تو وہ فوراًان کے کھانے پینےکے انتظام میں لگ گئےاور جو موٹاتازہ بچھڑا انہیں میسر تھا اسی کا گوشت بھنوا کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا
(سورۃ الذاریات) آیت نمبر -27۔26(ترجمہ)"تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹاتازہ بچھڑا زبح کرکےبھنوا لاۓ  اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا"
مہمان کے ساتھ اچھا برتاو مسلمان کا اخلاقی  فرض ہے۔ہمارے پیارے

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ "جو لوگ خدا اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں انہیں مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیے "(بخاری مسلم)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Plese like and share

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غصہ کرنا بری عادت ہے

نامور شاعرہ پاکستانی دلوں پر راج کرنے والی

میری تحر یر۔۔۔۔سب کے لیے۔پر سکون زندگی